*حکومت بلوچستان صنفی مساوات کے فروغ وصنفی بنیاد پرتشدد کے خاتمے کیلئے عملی اقدامات کررہی ہے،پارلیمانی سیکرٹری اقلیتی امور سنجے کمار پنجوانی*
پارلیمانی سیکرٹری برائے اقلیتی امور و بین المذاہب ہم آہنگی سنجے کمار پنجوانی نے کہا ہے کہ حکومت بلوچستان صوبے میں خواتین اور لڑکیوں کو درپیش مسائل کے حل، صنفی مساوات کے فروغ اور صنفی بنیاد پر تشدد کے مکمل خاتمے کے لیے عملی اقدامات کر رہی ہے اور یہ اقدامات حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے کہ وہ معاشرے کے اہم ترین حصے خواتین اور بچوں کے تحفظ، وقار اور بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائے سول سوسائٹی کی تجاویز نہایت اہمیت رکھتی ہیں، اور ہم ان سفارشات پر جامع عملدرآمد کے لیے تمام متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ اسمبلی کے فلور پر سول سوسائٹی، خصوصی طور پر خواتین کی بھرپور آواز بنیں گے۔انہوں نے ان خیالات کا اظہار کوئٹہ میں بلوچستان میں صنفی مساوات (Gender Parity) کو فروغ دینے، صنفی بنیاد پر تشدد کے مسائل کو اجاگر کرنے اور خواتین و لڑکیوں کے لیے موثر، حساس اور قابلِ رسائی انصاف کی فراہمی کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔تقریب میں پارلیمانی سیکرٹری برائے بہبود آبادی ہادیہ نواز، یو این وومن بلوچستان کی سربراہ عائشہ ودود، ایڈیشنل آئی جی پولیس جینڈر اسرار احمد، عورت فانڈیشن کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر و ایواجی الائنس کے چیئرمین علاؤالدین خلجی، پروبیشن و پیرول ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر عصمت اللہ خان، سابقہ خاتون محتسب صابرہ اسلام، بی سی ایس ڈبلیو کی سابق چیئرپرسن فوزیہ شاہین، پروجیکٹ کوآرڈینیٹر یاسمین مغل، یونیورسٹی آف بلوچستان کی پروفیسر فائزہ میر، جینڈر بیسڈ وائلنس ہیلپ لائن کے منیجر اشفاق مینگل، ایڈووکیٹ نصرت ترین سمیت دیگر شرکا نے شرکت کی۔شرکا نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ ڈیجیٹل تشدد کے کیسز میں خطرناک اضافہ ہورہا ہے۔ سوشل میڈیا، میسجنگ ایپس اور آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے ہراسانی، بلیک میلنگ، جعلی پروفائلز، نجی معلومات کے غلط استعمال اور آن لائن ٹریکنگ جیسے سنگین مسائل خواتین اور لڑکیوں کی آن لائن موجودگی کو شدید متاثر کر رہے ہیں۔ ایسے واقعات نہ صرف ذہنی دباؤ میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ متاثرہ خواتین کی روزمرہ زندگی، تعلیم اور روزگار پر بھی منفی اثرات مرتب کرتے ہیں، جس کے باعث مضبوط قانونی اقدامات اور تیز رفتار ردعمل کی ضرورت واضح ہوتی ہے۔شرکا نے موثر کمیونٹی آگاہی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آن لائن پرائیویسی، محفوظ پاس ورڈز، معلومات کے ذمہ دارانہ استعمال اور مشکوک سرگرمیوں کی بروقت رپورٹنگ جیسے موضوعات پر عوامی تربیت ناگزیر ہے تاکہ معاشرے میں محفوظ ڈیجیٹل کلچر کو فروغ دیا جا سکے۔ مزید کہا گیا کہ ڈیجیٹل تشدد کے متاثرین کے لیے مضبوط سپورٹ سسٹم، ہیلپ لائنز، قانونی معاونت، نفسیاتی مدد، اور موثر کیس مینجمنٹ سروسز انتہائی ضروری ہیں تاکہ متاثرہ افراد اعتماد کے ساتھ آگے بڑھ کر رپورٹ کر سکیں۔تقریب میں شرکا کو بلوچستان میں صنفی مساوات اور صنفی بنیاد پر تشدد کے خاتمے سے متعلق حکومتی و سماجی اقدامات پر بریفنگ دی گئی، جبکہ عورت فانڈیشن کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر علاؤالدین خلجی نے سفارشات پیش کرتے ہوئے کہاکہ ہر سال صنفی تشدد کے خلاف فعالیت کے 16دن منائے جاتے ہیں ۔جو 25نومبر سے شروع ہو کر 10دسمبر تک جاری رہتے ہیں ۔ سال 2025کا موضوع ''تمام خواتین اور لڑکیوں کے خلاف ڈیجیٹل تشدد کے خاتمے کے لیے متحد ہوں''ہے۔ دنیا کی تمام عورتوں کی تحریکیں ان 16دنوں میں عورتوں پر ہونے والے تشدد اور جبر کے خلاف اپنی آواز بلند کرتی ہے ۔ فعالیت کے یہ 16دن پوری دنیا میں عورتوں پر تشدد اور جبر کے خلاف جدوجہد کی علامت کے طور پر منائے جاتے ہیں ۔ اس سلسلہ کو مد نظر رکھتے ہوئے،خواتین پر تشدد کے لئے قائم ایوا جی الائنس، یو این وومن، عورت فائونڈیشن نے سال2025کے موضوع ''تمام خواتین اور لڑکیوں کے خلاف ڈیجیٹل تشدد کے خاتمے کے لیے متحد ہوں" کو مد نظر رکھتے ہوئے اس موقع پر حکومت وقت کو کچھ سفارشات پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات خوش آئند ہے کہ صوبائی حکومت کو مبارک باد پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے کم عمری کی شادی کی روک تھام کے حوالے سے بل اسمبلی سے منظور کر لیا ہے اس بل کے رولز آف بزنس کو بنا کر جلد از جلد منظور کئے جائے ۔تیزاب سے متاثرہ خواتین کی بحالی اور آبادکاری کے لئے بل اسمبلی میں لانے کے لئے غور کیا جائے تاکہ اس بل کو بھی اسمبلی سے منظور کیا جائے ۔ مقام ِکار پر مرد اور خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف قانون 2016 تحت صوبائی محتسب کا تقرر جلد از جلد کیا جائے ۔اس سلسلے میں سرکاری محکموں میں کمیٹیوں کی تشکیل اور عوامی سطح پر اس کی آگاہی مہم کو یقینی بنایا جائے۔بلوچستان میں امن اور بھائی چارے کی فضا کو بحال کرنے کے لئے حکومتی سطح پر عوام کے تعاون سے پالیسی تشکیل دیجائے۔ ہم حکومت وقت کو یہ بھی تجویز دیتے ہیں کہ وہ سرکاری اداروں میں تمام سطحوں پر خواتین کو برابری کی بنیاد پر نمائندگی دی جائے ۔ تمام سرکاری اور غیرسرکاری اداروں ، بینکوں میں معذور افراد کی آسان رسائی کے لئے اقدامات کئے جائے۔ہم تما م سیاسی جماعتوں سے پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ کوئٹہ کے لوکل گورنمنٹ کے الیکشن میں جنرل نشستوں کے لئے خواتین کو برابری کی بنیاد پر نامزدگی یقینی بنائی جائے اور یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ کوئٹہ کے لئے مئیر یا ڈپٹی مئیر کی پوزیشن پر خاتون کو لایا جائے ۔ایچ آر پالیسی کے تحت صنفی حساسیت کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے سرکاری محکموں ، عدلیہ اور پولیس میں خواتین کی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے ۔ خواتین کے حقوق کے حوالے سے فوری اور تیز ترین سماعت کے لئے عدالتوں میں موثر اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔صوبہ بلوچستان میں ڈویژنل سطح پر دارالامان کا قیام عمل میں لایا جائے اور تشدد سے متاثرہ خواتین کی فوری قانونی رہنمائی اور مقدمات کو جلد از جلد نمٹانے کے لئے وکلا پینل کی تعیناتی کو عمل میں لایا جائے۔ دنیا میں انٹرنیٹ کی بڑھتی ہوئی مانگ کو دیکھتے ہوئے اسے طلبا طالبات اور ای مارکیٹنگ سے منسلک خواتین کے لیے محفوظ بنایا جائے تاکہ سائبر کرائمز کو روکنے میں بھرپور مدد مل سکے سائبر کرائمز قوانین میں صنفی احساسات کے مطابق بہتر اور آسان ترامیم کرکے اسے خواتین اور بچوں کے لیے مزید بہتر بنایا جائے ،انہوں نے کہاکہ عورتوں کے خلاف تشدد ایک خطرناک حد تک عالمی مظہر کا باعث بن رہا ہے ۔ جس سے بے شمار عورتوں کی عزت و ناموس متاثر ہو رہی ہے۔ تشدد ایک بہت ہی بڑا صنفی امتیاز ، غیر مساویانہ رویہ اور معاشرے میں نا ہمواری کا بڑھتا ہوا ذریعہ بن رہا ہے ۔ تشدد کے حوالے سے اعداد و شمار برف پگھلنے کا ایک معمولی ذرہ معلوم ہوتا ہے ۔ عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات کے اعداد و شمار مستقبل میں بننے والی پالیسی اور قانونی اصلاحات کے سلسلے میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں ، سیاسی جماعتوں اور قانون دانوں کو مصالحتی طریقہ کار ، ترقیاتی پالیسیوں کے فریم ورک اور ادارتی نظام کے تحت عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمہ میں مددگار ثابت ہونگے۔ بلوچستان میں خواتین کی حالت زار بدلنے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں سیاسی عمل میں شمولیت کے ساتھ ساتھ سیاسی سطح پر مستحکم کیا جائے اور زندگی کے تمام شعبوں میں نمائندگی دی جائے ۔خواتین کے حقوق کی سب سے بڑی گارنٹی انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے ۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں رائج پدرسری نظام کے ساتھ ساتھ قبائلی رسم و رواج کے تحت عورت کو جائیداد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو اس کے حقوق کے برعکس ہے ۔ عورت کو واقعی طور پر اس کا مقام دینا مقصود ہو تو انہیں سیاسی ، تعلیمی ، انتظامی اور مالی طور پر مستحکم کرنا ہوگا۔ ہم نے آج تک عورت کو انسان ہی نہیں سمجھا ۔ ان کو طرح طرح سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ موجودہ صورتحال کرونا کے باعث خواتین پر گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔ بچیوں کی کم عمری اور جبری شادی کے رجحانات سے بچیوں کی صحت پر خطرنات اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔ پاکستان میں 21فیصد بچیوں کی شادی 18سال کی عمر سے پہلے کر دی جاتی ہے۔ جب تک رویوں میں تبدیلی نہیں لائی جائے گی اس وقت تک عورت کااستحصال ہوتا رہے گا۔ ۔آخر میں سنجے کمار پنجوانی نے کہا کہ بلوچستان ایک باوقار روایات رکھنے والا صوبہ ہے، جہاں خواتین کو عزت اور احترام دیا جاتا ہے۔ حکومت اس روایت کو برقرار رکھنے اور خواتین و بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ سول سوسائٹی کے تعاون سے صوبے میں صنفی انصاف اور محفوظ معاشرہ تشکیل دیا جائے گا, جس میں ہر عورت، لڑکی محفوظ ہو۔
Comments 0